• www.hamarapashto.com

    Hamara Pashto

    pashto poetry , pashto shairi , pashto rahmam baba poetry , pashto ghazal , pahto tapay , pashto poetry images , ghani khan poetry , khatir afridi poetry ,Mili Poetry, afghan poetry , pashto kakarai tapay , pashto Videoes, Pashto Mp3 Songs,Pashto Books,


    جــانــانه تــه خو داســې نـه وې؛ دچــا خبــري دې ضــرورمنلې دينه , تورو ته سپين خلک پيدا دي ځکه د سترګو تور د سترګو مينځ کې دينه , توره به نه کړې نو به څه کړې چې دې شېدې د پښتنې رودلي دينه , ته بې وفا شوې زه دې هېر کړم زه بې وفا نه يم چي تابه هېرومه , ته چې په ما پورې خندا کړې خدای دې مئين کړه چې زما د خندا شينه , ته چې زما د يارۍ نه وې زما ويده زړګی دې ولې ويښونه , ته چې زما قبر ته راشې زه به په قبر کې اشنا خوشاله شمه , ته د کوهاټ په غاښي راشه زه دره وال ټوپک په غاړه ګرځومه

    ۔پازیب ، افسانہ

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    (تحریر: فیروز افریدی)
    جمیل اپنی بیوہ ماں کا اکلوتا بیٹا تھا فرمان بردار تھا گاوں میں پرائمری سکول تک پڑھنے کے بعد مزید تعلیم جاری نہ رکھ سکا۔
    شھر جانا اس کے لئے مشکل تھا۔ایک تو ماں اکیلی تھی دوسری شہر میں تعلیمی اور رہائشی اخراجات اٹھانا اس کی بیوہ ماں کے لئے مشکل تھے بارہ تیرہ سال کے بعد جمیل نے بھی ماں کے ساتھ مل کر کھیتوں میں کام کرنا شروع کیا اور اپنے بیوہ ماں کا ھاتھ بٹانے لگا ماں کے ساتھ گھر کا بوجھ اٹھانے کی کوششوں میں لگا رہا ۔
    جمیل جب 20 سال کا ہوا۔انکی داڑھی مونچ نکل آئی تھی ایک خوبصورت گھبرو جوان کی شکل میں اب جمیل بڑا ہوگیا تھا۔
    اسکی ماں ایک باھمت خاتون تھی اور پورے گاوں اور رشتہ داروں میں انہیں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا کہ ایک بیٹے کی خاطر اس نے دوسری شادی نہیں کی اور اپنے اکلوتے بیٹے کی خاطر اپنے بھری جوانی بیوگی میں عزت کے ساتھ گزاردی۔
    محنت مشقت کرتی رہی لیکن کسی کے سامنے ھاتھ نہیں پھیلایا۔
    اس وجہ سے سارے لوگ انکی عزت کرتے تھے۔جب جمیل بڑا ہوا تو اپنے رشتہ داروں میں اپنے بیٹے کے لئے لڑکی کی بات کی تو سب نے انہیں بیک اواز کہا۔
    آپا! اپ جس لڑکی پر انگلی رکھوگی وہ تمہاری ہے ۔
    اور آخر اپا نے اپنے جمیل کے لئے زیبا کا انتخاب کر ھی دیا۔
    دو تین مہینے بعد زیبا جمیل کی ہوگئ ۔آپا نے اپنی استطاعت کے مطابق بیٹے کی شادی سادگی کے ساتھ کردی۔
    جمیل نے ماں کی مرضی سے شادی کی تھی ۔
    شادی سے پہلے اس نے اپنے ھونے والی بیوی کو کبھی غور سے نہیں دیکھا تھا۔
    سہاگ رات کو جب جمیل نے اپنی بیوی کا خوبصورت پری نما چہرا دیکھا ۔تو مارے خوشی کے دل میں لڈو پھوٹ گئے ۔بیشکہ اس کی بیوی اسکے اندازوں سے بھی زیادہ خوبصورت تھی۔
    زیبا خوبصورت تو تھی ھی اوپر سے بے حد سمجھدار اور سیانی تھی۔
    چند دنوں میں زیبو نے ساس اور اپنے جمیل کا دل اپنے مٹھی میں کردیا ۔دونوں ماں بیٹا زیبا کی ایک مسکراہٹ پر مر مٹتے تھے۔ ۔
    جمیل چاھتا تھا کہ زیبا کے لئے وہ آسمان سے تارے تھوڑکر لے ائے۔
    وہ زیبا کے اوپر بلکل عاشق جیسا ہوگیا تھا اور اسے ٹوٹ کر چاھنے لگا تھا ۔
    دو تین مہینے ھنسی خوشی پلک چپکتے ھی جیسے گزر گئے ۔
    اس کے بعد جمیل کو اپنے ذمہ داری کا احساس ہونے لگا۔
    وہ سوچنے لگا کہ گاوں کے باقی لوگ بھی باھر کئی ایک بڑے شہروں میں جاکر مزدوری کرنے جاتے ہیں چند مہینے گزار کر پیسے کما کر لاتے ہیں پھر چند دن بعد پھر چلے جاتے ہیں یہی گاوں والوں کا معمول تھا۔
    جمیل بھی کئ ایک دفعہ ماں سے مشورہ کرچکا تھا لیکن شادی سے پہلے ماں نے انہیں جانے کی اجازت نہیں دی تھی
    اب چونکہ انکی شادی بھی ہوگئ تھی اور اب وہ ایک ذمہ دار جوان بن گیا تھا لہذا اس بار اسکا ارادہ پکا ہوگیا تھا کہ وہ بھی اپنی قسمت آزما لیں گے اور اماں اور زیبو کے لئے کپڑے لتے اور گھر کی چیزیں اپنی کمائی ھائی مزدوری کے پیسوں سے لائیں گے۔
    انہوں نے یہ بھی سوچا تھا کہ اپنی خوبصورت بیوی کے لئے چاندی کے پازیب بھی خریدیں گے جب وہ گھر میں چن چن کرکے گھومتی رہے گی تو کتنا اچھا لگے گا۔ زیبو انہیں اپنی جان سے بھی زیادہ پیاری تھی۔
    جمیل کئی دنوں سنجیدگی سے سوچ رہاتھا کہ اب کی طار جانے والے گاوں کے لڑکوں کے ساتھ میں بھی جاونگا۔
    جمیل کو جب زیبو نے سوچتے ہوئے دیکھا ۔تو ایک دن
    انہوں نے ان سے اداسی کی سبب پوچھی تو جمیل نے انہیں دل کی بات بتا ھی دی۔
    زیبو۔! 
    میں چاھتا ہوں کہ ہماری زندگی میں بھی دوسرے لوگوں کی طرح خوبصورت اسائیشیں آجائیں ۔
    میں آپ کے لئے بہت کچھ کرنا چاھتا ہوں ۔میں چاھتا یوں کہ اپکے لئے خوبصورت کپڑے بہت ساری رنگ برنگی چوڑیاں اور دیگر سولہ سینگار کی چیزیں لے کر اوں ۔
    گاوں کی محنت مزدوری سے تو تمہیں پتہ ہے کچھ نہیں بچتا۔اگرچہ تم سے جدائی کا تو میں سوچ بھی نہیں سکتا لیکن اگر تم اجازت دو تو میں شہر چلا جاتا ہوں وہاں دو تین مہینے مزدوری کرکے واپس اجاونگا۔
    اور آتے وقت اماں اور تمہارے لئے کپڑے وغیرہ اور گھر کے لئے بھی کچھ ضروری چیزیں لے کر اونگا۔
    زیبا بہت سمجھدار لڑکی تھی عام لڑکیوں کی طرح نخرے دیکھانے والی نہیں تھی۔ جب اس نے جمیل کی باتیں سن لیں ۔تو ٹھنڈی سانس بھر کر کہنے لگی۔ جمیل مجھے تمہاری خوشی عزیز ہے کیونکہ اللہ کے بعد آپ ھی میرے سب کچھ ہو ۔
    میں تو چاھتی ہوں کہ ایک پل کے لئے بھی اپ کو اپنی آنکھوں سے اوجھل نہ ہونے دوں ۔
    میرے لئے اپکا پیار ہی سب کچھ ہے ۔مجھے تمہارے سیوا کسی چیز میں بھی دلچسپی نہیں۔
    لیکن اگرتم گھر کے لئے واقعی جانا چاھتے ہو تو میں اپکو نہیں روکونگی۔ پھر لوگ کہیں گے کہ دلہن نے اپنے خاوند کو اپنے پاس سے جانے نہیں دیا۔ اس لئے میں آپکی جدائی برداشت کرلونگی لیکن آپ پر کوئی آنچ نہیں آنے دونگی۔
    اپنی ماں سے بھی ضرور پوچھ لینا کہ وہی ہماری بڑی ہے اور اسکا فیصلہ ہمارے لئے حرف آخر ہے۔
    جمیل نے رنجیدہ دل سے کہا ضرور امی کی اجازت کے بغیر تو ایک کام بھی نہیں ہو سکتا۔
    دوسرے دن جمیل نے اپنے امی کو بڑی مشکل سے راضی کیا اور تین مہینے کے لئے اجازت لے لی۔
    گاوں کے دو تین لڑکے اور بھی جارہے تھے وہ سب ایک سڑک بنانے والے ٹھیکیدار کے ساتھ کام کرتے تھے ۔اور پہلے بھی جا چکے تھے لہذا ان کے ساتھ ھوکر جمیل کو کوئی خاص مشکل نہیں تھی۔مزدوری کا کام بھی ان لوگوں کی توسط سے اسانی سے مل سکتا تھا۔
    شہر سینکڑوں میل کے فاصلے جانے پر تھا۔ایک رات و دن کی سفر کرنے کے بعد یہ لوگ شگر کے مضافات میں بنے والے سڑک بنانے والے ٹھیکدار کے پاس پہنچ گئے۔
    وہاں پر جمیل بھی دوسرے دوستوں کے ساتھ مل کر ٹھیکدار کے پاس کام کرنے لگ گیا۔
    سارا دن پتھروں کو ھتھوڑوں سے تھوڑکر اسکا روڑا بناتے تھے شام کو کام ختم کربے کے بعد سڑک کے کنارے نصب خیموں میں سوجاتے تھے ۔ 
    کھانا سب لوگ مشترکہ بنا کر کھالیتے تھے ۔
    سڑک شہر سے باھر بن رہی تھی ۔ ھفتے میں ایک دن چھٹی ملتی تھی۔
    چھٹی کے دن مزدور لوگ اپنے کپڑے وغیرہ دھو کر پھر تھوڑی دیر کے لئے شہر کی طرف بھی نکل جاتے تھے۔
    جمیل شہر میں مختلف چیزیں دیکھ کر دل میں سوچنے لگتا۔
    کہ جب واپس گھر جاونگا تو یہ شال امی کے لئے لونگا یہ جوڑا زیبو کے لئے اور جب انہیں مہینے بعد ٹھیکدار سے تھوڑے بہت روپے ملتے تو دوسرے دوستوں کی دیکھا دیکھی وہ بھی تھوڑا سا سامان سودا وغیرہ خرید کر اپنے خیمے میں لاتے اور بیگ میں رکھ لیتے تھے ۔ ریکسین کا چمکدار بیگ بھی انہوں نے یہیں شہر اکر خرید لیا تھا۔
    جمیل کو گھر سے ائے ہوئے اور مزدوری کرتے کرتے تقریبا پانچ مہینے ہوگئے تھے۔انکو گھر کی یاد آنے لگی تھی ۔
    کچھ دوست واپس جانے کی باتیں کررہے تھے ۔
    جمیل کو بھی اپنی اماں اور زیبو کی یاد ستانے لگا تھا ۔۔لہذا انہوں نے بھی اپنے دوستوں کیساتھ جانے کا ارادہ ظاہر کیا تھا گھر والوں کے لئے چیزیں پہلے سے خریدی ہوئی تھی بس زیبو کے لئے انکے دل میں پازیب خریدنے کا جو ارمان تھا۔
    اسے بے چین کررہا تھا۔ جانے سے ایک دن پہلے جمیل ایک دوست کے ساتھ بازار چلاگیا ایک سنار کی دکان سے چاندی کا خوبصورت پازیب خرید ڈالا۔ چاندی کا باریک پازیب بہت خوبصورت لگ رہا تھا۔
    جمیل اتنا خوش تھا جیسے چاند کا ٹکڑا انکے ھاتھ میں اگیا ہو ۔بہت ہی اختیاط سے پازیب کو کئی اخباروں اور کپڑوں میں تہہ در تہہ کرکے لپیٹ لیا اور بیگ میں سنبھال کر رکھا اور جب جانے کا وقت آیا تو تصور میں زیبو کا خوبصورت کھلا ہوا چاند سا مکڑا جیسے کہ انکے دل میں اتر آیا ہوا۔ وہ دل ہی دل میں زیبو کے سفید خوبصورت پاوں میں پازیب کی جھنکار محسوس کر رہا تھا
    وہ اپنی ماں اور زیبو کے پاس اڑ کر جانا چاہتا تھا۔
    آخر وہ گھڑی آپہنچی جب یہ لوگ گاوں کے دوستوں کے ساتھ اپنے گاوں میں داخل ہوئے۔
    گاوں کے بچوں نے ان کو دور سے آتے ہوئے دیکھا تھا اس لئے سب اپنے اپنے گھروں کی طرف بھاگ گئے تھے تاکہ اپنے ماوں بہنوں کو بتا دیں کہ شہر سے فلاں فلاں آگئے ہیں ۔
    جمیل کے دوستوں کے گھر والے اپنے گھروں سے نکل کر باھر گلی میں انکے استقبال کے لئے لپکے ۔
    جمیل کو دیکھ کر گاوں کے لوگوں نے پیکی مسکرھٹ سے انہیں بھی خوش آمدید اور جی ایا نوں کہہ رہے تھے ۔ 
    جمیل بہت خوش تھا ۔
    انہوں نے ان سب لوگوں میں اپنی ماں اور زیبو کو تلاش کیا لیکن وہ نظر نہیں آئے
    انہیں تھوڑا سا دھڑکا تو لگا لیکن یہ سوچ کر کہ ہوسکتا ہے کہ امی کو خبر نہ ہو، اور وہ زیبو کو لیکر انکے میکے گئ ہوگی۔
    جب گھر کے دروازے کے قریب پہنچے تو امی کو دروازے پر دیکھ لیا ۔جمیل دوڑ کر اپنی اماں سے لپٹ گیا۔
    ماں نے اسے چھوما انکی بلائیں لیں اور دونوں گھر کے اندر داخل ہوئے۔
    جمیل بے صبری سے برآمدے میں اپنا بیگ رکھ کر ادھر ادھر نظر دوڑانے لگے ۔لیکن آنگن اور برآمدے میں زیبو نظر نہیں ائی۔
    اماں کے ساتھ برآمدے میں چارپائی پر بیٹھ گئے اماں اٹھی جمیل کے لئے سامنے رکھے گھڑے سے پانی کا لوٹہ بھر کر لائی ۔جمیل نے اماں سے لوٹا لیتے ہوئے پوچھا اماں زیبو کہاں ہیں؟
    اماں نے کہا بیٹا اندر ہے۔
    جمیل نے سوچا شاید شرمارہی ہے اس لئے سامنے نہیں آرہی ہے۔
    پانی پینے کے بعد جمیل نے اپنا بیگ کھولا۔
    اماں کو کپڑے شال اور بہت ساری چیزیں دینے کے بعد انہوں نے کہا۔
    دیکھ اماں زیبو کے لئے کتنا خوبصورت پازیب خرید کر لے آیا ہوں ۔اور پھر زور سے چیخا۔
    زیبو باھر اجاو ۔
    دیکھ تمہارے لئے کتنا خوبصورت پازیب لے کر آیا ہوں ۔
    اندر سے کوئی آواز نہیں ائی۔پازیب کو اخباروں اور کپڑوں سے نکال کر پہلے اماں کو دیکھایا پھر اماں سے کہا چلو اماں اندر انکو پہنا دیتے ہیں ۔
    اور جب وہ اپنے کمرے کی چوکاٹ سے اپنا پاوں اندر کر رہا تھا تو زیبو کو پلنگ پر لیٹے ہوئے دیکھ لیا اماں کی طرف مڑ کر زیبو سے کہا ۔زیبو پازیب پہن لو اپکے لئے لایا ہوں ۔یہ کہہ ہی پائے تھے کہ اماں کا ضبط ٹوٹ گیا اور زور سے چیخیں مارنا شروع کی۔ زیبو نے بھی اپنا چہرا کمبل میں چھپا لیا تھا
    اماں کیوں ۔۔کیا ہوا زیبو کو؟
    اماں نے ھچکی لیتے ہوئے کہا ۔ 
    بیٹا زیبو کی دونوں ٹانگیں ہسپتال والے بم دھماکے میں کٹ گئیں ہیں ۔
    اب یہ پازیب کبھی بھی نہیں پہن سکے گی۔

    No comments:

    Post a Comment

    About Author


    About Me


    Shahid Khan Mandokhail the Man behind the This Amazing Website Living in Zhob City , graduated from University of Balochistan. A single Boy, internet marketer. Formerly a riding instructor, living with His Parents and 2 Brothers in Zhob
    Contact:

    Phone:
    +923108097598


    Total Pageviews